آية الكرسي


طاقت

بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا
اُداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا

ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا

حیات اب شام غم کی تشبیہ خود بنے گی
تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا

چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں
کہ جاں بچانے کا استخارہ نہیں چلے گا

ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں
ہمارے جذبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا

ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسن
چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا

 محسن نقوی

محرم


محرم



سفر

سفر تنہا نہیں کرتے
سنو ایسا نہیں کرتے

 
جسے شفاف رکھنا ہو
اُسے میلا نہیں کرتے

 

تیری آنکھیں اجازت دیں
تو ہم کیا نہیں کرتے

 

بہت اُجڑے ہوئے گھرکو
بہت سوچا نہیں کرتے

 

سفر جس کا مقدر ہو
اُسے روکا نہیں کرتے

 

جو مل کر خود سے کھو جائے
اُسے رُسوا نہیں کرتے
 

یہ اُونچے پیڑکیسے ہیںسایہ نہیں کرتے
 

کبھی ہسنے سے ڈرتے ہیں
کبھی رویا نہیں کرتے

 

تیر آنکھوں کو پڑھتے ہیں
تجھے دیکھا نہیں کرتے


چلو!!!

  تم راز ہو اپنا
تمہیں افشا نہیں کرتے


سحر سے پوچھ لو محسن
ہم سویانہیں کرتے

محسن نقوی

 

تنہائی

آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا
کتنے رُوٹھے ہوئے ساتھی مُجھے یاد آئے ہیں


موسمِ وصل کی کِرنوں کا وہ انبوہِ رواں
جس کے ہمراہ کسی زُہرہ جبِیں کی ڈولی
 

 ایسے اُتری تھی کہ جیسے کوئی آیت اُترے
ہِجر کی شام کے بِکھرے ہوئے کاجل کی لکِیر
 

جس نے آنکھوں کے گُلابوں پہ شفق چَھڑکی تھی
جیسے خُوشبو کسی جنگل میں برہنہ ٹھہرے
 

خلقتِ شہر کی جانب سے ملامت کا عذاب
جس نے اکثر مُجھے’’ہونے‘‘ کا یقیں بخشا تھا
 

دستِ اعدأ میں وہ کِھنچتی ہوئی تہمت کی کماں
بارشِ سنگ میں کُھلتی ہوئی تیروں کی دُکاں
 

مہرباں دوست، رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے
اجنبی لوگ، دل و جاں میں قدم رکھتے ہوئے
 

آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا
کتنے رُوٹھے ہوئے ساتھی مُجھے یاد آئے ہیں
 

اب نہ پندارِ وفا ہے، نہ محبت کی جزا
دستِ اعدأ کی کشِش ہے نہ رفیقوں کی سزا
 

تختۂ دار، نہ منصب، نہ عدالت کی خلِش
اب تو اِک چِیخ سی ہونٹوں میں دبی رہتی ہے
 

راس آئے گا کسے دشتِ بلا میرے بعد؟
کون مانگے گا اُجڑنے کی دُعا میرے بعد؟
 

آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا

محسن نقوی

 

جنوں

جنوں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا

میں اپنی ذات کی سچائیوں سے ڈرتا رہا


محبتوں سے شناسا ہوا میں جس دن سے

پھر اس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا


وہ چاہتا تھا کہ تنہا ملوں، تو بات کرے !

میں کیا کروں میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا


میں ریگزار تھا، مجھ میں بسے تھے سناٹے

اسی لئے تو میں شہنائیوں سے ڈرتا رہا


میں اپنے باپ کا یوسف تھا اس لیے محسن

سکوں سے سو نا سکا بھائیوں سے ڈرتا رہا


محسن نقوی

وفا



وفا میں اب یہ ہنر اختیار کر نا ہے
وہ سچ کہے نہ کہے ، اعتبار کرنا ہے

یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا
مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ہے

ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسووں کے چراغ
کبھی یہ جشن سرِ راہ گزار کرنا ہے

مثالِ شاخِ برہنہ ، خزاں کی رت میں کبھی
خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ہے

تیرے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے
کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے

کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں
قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ہے

خدا خبر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے

محسن نقوی 

دیا

ہم کوتو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن

نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن

میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!

(علامہ اقبال)

کربلا


    کربلا گواہی دے


    فاطمہ کی بیٹی نے

    باپ کی شجاعت کو

    صبر سے بدل ڈالا

    بھائی کی رفاقت کا

    حق ادا کیا کیسا


    کربلا گواہی دے

    باب شہر حکمت سے

    خیمہ گاہ نصرت تک

    محضر شہادت تک

    کیسے کیسے نام آئے

    کیا عجب مقام آئے

    حق کی پاسداری کو

    فرض جاننے والے

    راہ حق میں کام آئے

    ساتھ ساتھ تھی زینب


    کربلا گواہی دے


    پھر وہ شام بھی آئی

    جب بہن اکیلی تھی

    اک سفر ہوا انجام

    ریگ گرم مقتل پر

    چند بے کفن لاشے

    بھائیوں بھتیجوں کے

    گودیوں کے پالوں کے

    ساتھ چلنے والوں کے

    ساتھ دینے والوں کے

    کچھ جلے وئے خیمے

    کچھ ڈرے ہوئے بچے

    جن کا آسرا زینب

    جن کا حوصلہ زینب


    کربلا گواہی دے


    مشہد مقدس سے

    اک نیاسفر آغاز

    اک سفر ہوا انجام

    جس کی ایک منزل شام

    شام شامِ مظلومی

    اور وہ خطبہ زینب

    پھر تو بر سر دربار

    پوچھنے لگی دنیا

    ظلم کی کہانی میں

    داستاں سرا وں کے

    حاشیئے کہاں تک ہیں

    سوچنے لگی دنیا

    منبر سلونی کے

    سلسلے کہاں تک ہیں

    خیر کے تحفظ پر

    گھر لٹانے والوں کے

    حو صلے کہاں تک ہیں

    وقت نے گواہی دی

    جبر کے مقابل میں

    مصحف شہادت کا

    آخری ورق زینب


    یہ جو درد محکم ہے

    یہ بھی اک گواہی ہے

    یہ جو آنکھ پر نم ہے

    یہ بھی اک گواہی ہے

    یہ جو فرش ماتم ہے

    یہ بھی اک گواہی ہے


    افتخار عارف



12